سوشل میڈیا کا عروج
جہاں ایک طرف نوجوانوں کو اظہارِ رائے اور تخلیقی صلاحیتوں کے مواقع فراہم کر رہا ہے، وہیں دوسری طرف کچھ صارفین خاص طور پر ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر حد سے گزرنے لگے ہیں۔ حالیہ دنوں میں کئی ایسی وڈیوز منظرِ عام پر آئیں جنہیں نہ صرف “وائرل” قرار دیا گیا بلکہ ان میں نازیبا اور غیر اخلاقی مناظر کی بھرمار نے والدین، اساتذہ، اور سماجی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

بہت سے نوجوان ٹک ٹاکرز شہرت اور فالوورز حاصل کرنے کی دوڑ میں ایسے مواد کو ترجیح دینے لگے ہیں جو معاشرتی اقدار، مذہبی اصولوں اور اخلاقیات سے متصادم ہے۔ نامناسب لباس، نازیبا حرکات، اور فحش جملوں پر مبنی ویڈیوز اب “ٹرینڈ” بنتی جا رہی ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف اخلاقی انحطاط کی علامت ہے بلکہ نوجوان نسل کی تربیت پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔

یہ ویڈیوز بعض اوقات اتنی پھیل جاتی ہیں کہ ایک عام ٹک ٹاکر راتوں رات پہچان بنالیتا ہے — لیکن کس قیمت پر؟ شہرت کے پیچھے دوڑنے والے یہ نوجوان اکثر اس بات کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ایک بار اپ لوڈ کی گئی ویڈیو ہمیشہ کے لیے ریکارڈ کا حصہ بن جاتی ہے، جو بعد میں شرمندگی یا پشیمانی کا سبب بن سکتی ہے۔

حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے ایسے مواد پر کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں پہلے بھی ٹک ٹاک کو وقتی طور پر بند کیا جا چکا ہے، مگر یہ مسئلہ صرف ایپ بند کرنے سے نہیں بلکہ تربیت اور شعور سے حل ہوگا۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تربیت دیں اور بتائیں کہ عزت اور شہرت میں فرق ہوتا ہے