جب دو ہمسایہ ممالک، جن کے درمیان تاریخی اختلافات، جنگیں اور سفارتی کشیدگیاں موجود ہوں، کسی تعمیری سمت میں جانے کے بجائے طعن و طنز کی راہ اپنائیں، تو ایسی باتیں جنم لیتی ہیں جیسے: “پاکستان صرف بھارت کو پیشاب ہی فروخت کرتا رہے تو اچھا خاصا کاروبار چل سکتا ہے۔” بظاہر یہ جملہ ایک طنز ہے، مگر اس کے پس منظر میں کئی تلخ حقائق اور سوالات چھپے ہیں، جو پاکستان اور بھارت کے تعلقات، وسائل کی سیاست، اور جنوبی ایشیا کی ترقی میں رکاوٹوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
آبی وسائل: تعاون یا کشمکش؟
دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا قدرتی اشتراک پانی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ اس اشتراک کی قانونی بنیاد تھا، جس کے ذریعے دریا تقسیم کیے گئے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ آج 60 سال بعد بھی، بجائے اس کے کہ پانی جیسے قیمتی وسیلے کو مشترکہ ترقی کا ذریعہ بنایا جاتا، اسے جنگی ہتھیار یا سیاسی دباؤ کا آلہ بننے دیا گیا۔
طنز میں چھپی حقیقت
جملہ “پیشاب کی تجارت” صرف ایک مزاحیہ یا توہین آمیز بیان نہیں، بلکہ یہ اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر دونوں ممالک ایک دوسرے سے اقتصادی تعاون نہ کریں، تو ترقی کی راہیں بند ہو جاتی ہیں اور بامعنی تجارت کی جگہ فضول باتیں لے لیتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت اگر زراعت، پانی، توانائی، ادویات، اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں تعاون کرتے، تو دونوں کی معیشتیں کئی گنا بہتر ہو چکتیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں، اپنے اپنے عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔
کاروبار یا بد اعتمادی؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت ہمیشہ سیاسی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ آج جب دنیا “ریجنل انٹیگریشن” کی بات کر رہی ہے، ہمسایہ ممالک تجارت بند کر کے اپنے ہی عوام کو مہنگائی، قلت، اور بیروزگاری کے حوالے کر رہے ہیں۔ اگر واقعی کوئی “پیشاب کی تجارت” کا مذاق بنا رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے درمیان حقیقی اشیاء کی تجارت کا خواب اتنا غیر حقیقی لگتا ہے کہ لوگ اس پر طنز کرتے ہیں۔
نتیجہ
یہ جملہ چاہے جتنا بھی طنزیہ ہو، اس کے پیچھے ایک سوال چھپا ہے: کیا پاکستان اور بھارت حقیقت میں اتنے دور ہو چکے ہیں کہ اب سنجیدہ تجارت کی باتیں مضحکہ خیز لگتی ہیں؟ اگر دونوں ممالک نے عقل، تدبر اور دور اندیشی سے کام لیا تو پانی، زراعت، بجلی اور دیگر شعبوں میں مشترکہ ترقی ممکن ہے۔ ورنہ، ہم صرف طنز، نفرت اور تاریخی جھگڑوں کی دلدل میں ہی پھنسے رہیں گے — جہاں صرف “پیشاب کی تجارت” جیسے جملے ہی رہ جاتے ہیں