پاکستان کی حکومت کی جانب سے جمعرات کی شام سے بھارتی ایئرلائنز کے لیے فضائی حدود بند کرنے کے فیصلے کے بعد خطے میں فضائی آمد و رفت کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس بندش سے اندازاً 800 سے زائد ہفتہ وار پروازیں متاثر ہونے کا امکان ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف ایئرلائنز بلکہ مسافروں کو بھی مختلف سطحوں پر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
طویل راستے، زیادہ وقت
پاکستان کی فضائی حدود بند ہونے سے بھارتی ایئرلائنز کو اپنے بین الاقوامی روٹس کے لیے متبادل راستے اختیار کرنے ہوں گے۔ ان متبادل راستوں کی لمبائی زیادہ ہونے کی وجہ سے پروازوں کا دورانیہ بڑھے گا۔ مثلاً دہلی سے یورپ یا خلیجی ممالک جانے والی پروازوں کو اب طویل فضائی راستہ اپنانا ہوگا، جس سے نہ صرف سفر کا وقت بڑھے گا بلکہ ایئرلائنز کی وقت پر پروازوں کو یقینی بنانے کی اہلیت بھی متاثر ہو گی۔
ایندھن کے اخراجات میں اضافہ
طویل پروازوں کا ایک براہ راست اثر ایندھن کی کھپت پر پڑتا ہے۔ جب طیارے زیادہ دیر تک پرواز میں رہتے ہیں تو لازماً ایندھن کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایندھن کے بڑھتے ہوئے اخراجات ایئرلائنز کی آپریشنل لاگت میں نمایاں اضافہ کریں گے، جو بالآخر کرایوں میں اضافے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
عملے اور شیڈولنگ کے مسائل
فضائی حدود کی اس بندش سے پروازوں کے شیڈول میں بھی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ پروازوں کی طویل مدت کی وجہ سے ہوابازوں اور کیبن کریو کے لیے اضافی آرام اور کام کے اوقات کا تعین بھی ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ بعض اوقات ان مسائل کی وجہ سے پروازیں منسوخ یا تاخیر کا شکار بھی ہو سکتی ہیں۔
سفری پریشانیوں میں اضافہ
مسافروں کے لیے بھی یہ صورت حال خاصی تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔ پروازوں کے دورانیے میں اضافے کی وجہ سے سفر زیادہ تھکا دینے والا ہو جائے گا، جبکہ ممکنہ تاخیر اور رَد و بدل کی وجہ سے مسافروں کو اپنے شیڈول میں تبدیلیاں کرنی پڑیں گی۔ بین الاقوامی کنکشنز اور ٹرانزٹ مسافروں کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
سفارتی و تجارتی پہلو
پاکستان کی فضائی حدود کی بندش کا فیصلہ بظاہر ایک سیاسی یا سفارتی پس منظر رکھتا ہے، لیکن اس کے اثرات صرف سفارتکاری تک محدود نہیں رہیں گے۔ یہ اقدام بھارت کی سول ایوی ایشن انڈسٹری کے لیے مالی طور پر نقصان دہ ہو سکتا ہے، جبکہ خطے میں کشیدگی بھی بڑھ سکتی ہے۔
نتیجہ
پاکستان کی فضائی حدود کی بندش بھارتی ایئرلائنز کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جو نہ صرف آپریشنل لاگت کو بڑھا رہا ہے بلکہ مسافروں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ اگر یہ بندش طویل مدت تک جاری رہی تو دونوں ممالک کی ایوی ایشن انڈسٹری اور عوامی رابطے پر اس کے منفی اثرات نمایاں ہو سکتے ہیں۔ اس صورتحال کا حل سفارتی سطح پر بات چیت اور باہمی مفاہمت سے ہی ممکن ہے