گل چاہت، جو کہ پشتو زبان کی مشہور ٹک ٹاک اسٹار اور خواجہ سراؤں کی آواز کے طور پر جانی جاتی ہیں، حالیہ دنوں ایک نازیبا ویڈیو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد خبروں میں آ گئی ہیں۔ یہ واقعہ نہ صرف ان کی ذاتی زندگی پر اثر انداز ہوا ہے، بلکہ پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ایک بار پھر بحث چھیڑ دی ہے۔
گل چاہت کون ہیں؟
گل چاہت نے سوشل میڈیا، خصوصاً ٹک ٹاک، پر اپنی مزاحیہ ویڈیوز، رقص، اور بے باک انداز سے شہرت حاصل کی۔ وہ خواجہ سراؤں کے مسائل، ان کے خلاف امتیازی سلوک اور معاشرتی رویوں کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ ان کا پیغام سادہ مگر موثر ہوتا ہے: خواجہ سرا بھی انسان ہیں اور انہیں عزت و برابری کا حق حاصل ہے۔
ویڈیو لیک ہونے کا واقعہ
حال ہی میں، ایک مبینہ نازیبا ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ گل چاہت کی ہے۔ اگرچہ ویڈیو کی تصدیق یا گل چاہت کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، لیکن سوشل میڈیا پر اسے لے کر سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ کچھ لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا، تو کچھ نے ان کے حق میں آواز بلند کی اور اس عمل کو پرائیویسی پر حملہ قرار دیا۔
معاشرتی رویہ اور منافقت
یہ واقعہ پاکستانی معاشرے میں موجود منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ ایک طرف لوگ خواجہ سراؤں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، دوسری طرف ان کی نجی زندگیوں میں مداخلت کر کے انہیں رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ گل چاہت جیسی شخصیات جو پہلے ہی معاشرتی تعصب کا سامنا کرتی ہیں، ان کے لیے ایسے واقعات مزید ذہنی اذیت کا باعث بنتے ہیں۔
قانونی و اخلاقی پہلو
ویڈیو لیک کرنا اور اس کی تشہیر کرنا نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ غیر قانونی بھی ہے۔ پاکستان کے سائبر کرائم قوانین کے تحت کسی کی نجی ویڈیو بغیر اجازت شیئر کرنا جرم ہے۔ اس طرح کے واقعات نہ صرف متاثرہ فرد کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں بلکہ معاشرتی عدم برداشت کو بھی فروغ دیتے ہیں۔
نتیجہ
گل چاہت کا واقعہ محض ایک فرد کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جو پہلے ہی نظر انداز، مظلوم اور غیر محفوظ ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم بطور معاشرہ ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں، ان کی پرائیویسی کا احترام کریں اور ان کے حقوق کی حفاظت کریں