نواز شریف اور مریم نواز کی بھارتی جارحیت پر مجرمانہ خاموشی

خاموشی کی قیمت:

حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف بڑھتی ہوئی جارحیت نے ایک بار پھر قومی سلامتی کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر مسلسل خلاف ورزیاں، سفارتی محاذ پر پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوششیں، اور پاکستان مخالف بیانیے کا زہریلا پھیلاؤ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے میں جب پوری قوم کو یکجہتی، حوصلے اور قیادت کی ضرورت ہے، چند نمایاں سیاسی شخصیات کی خاموشی نے عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔

نواز شریف اور مریم نواز، جو تین بار وزیراعظم رہنے والے رہنما اور مسلم لیگ (ن) جیسے بڑی سیاسی جماعت کے مرکزی کردار ہیں، بھارت کے ان جارحانہ اقدامات پر مسلسل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کس مجبوری یا حکمتِ عملی کے تحت اپنی زبان بند رکھے ہوئے ہیں؟ عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب دشمن کھلے عام ملک کی سالمیت کو للکار رہا ہو، یہ خاموشی کیا کسی خوف کا نتیجہ ہے، کسی مفاد کا تقاضا ہے یا کسی بیرونی دباؤ کا شاخسانہ؟

یہ بات قابلِ غور ہے کہ ماضی میں نواز شریف کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے قربت اور ان کے ذاتی مراسم پر بھی سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ یہ تعلقات اگر محض سفارتی حد تک رہتے تو شاید قابلِ فہم ہوتے، مگر جب ان مراسم کی جھلک پاکستان کے مفادات کو پیچھے دھکیلتی محسوس ہو، تو عوام کا بے چین ہونا فطری ہے۔

آج ملک کا ہر شہری یہ سوال کر رہا ہے: کیا سیاست، ذاتی مفادات یا بیرونی روابط ملکی خودمختاری سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں؟ اگر قیادت ایسے نازک وقت میں لب کشائی سے قاصر ہے، تو پھر وہ کس مقصد کے لیے عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے؟

جب سرحدوں پر ہمارے سپاہی اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہوں، جب شہری عدم تحفظ کا شکار ہوں، جب قوم کو اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت ہو، تب قیادت کی خاموشی نہ صرف ناقابلِ فہم ہے بلکہ ناقابلِ قبول بھی ہے۔ قوم کو ایسے لیڈران کی ضرورت ہے جو قوم کے ساتھ کھڑے ہوں، دشمن کو واضح پیغام دیں اور قومی بیانیے کو جرات سے دنیا کے سامنے رکھیں۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ خاموشی کبھی کبھی بزدلی کی علامت بن جاتی ہے، اور موجودہ حالات میں اس خاموشی کی قیمت صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ پورا ملک چکا سکتا ہے۔