“مناہل ملک – “ایک بیٹی کی کہانی، ایک معاشرے کا آئینہ

ہماری بیٹی مناہل ملک، وہی مناہل جسے آج سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، جسے بدنامی کے طوفان میں گھسیٹا جا رہا ہے، وہ ہماری بیٹی ہے — ایک انسان، ایک لڑکی، ایک بیٹی، جو آپ کے گھروں میں بیٹھی بچیوں جیسی ہے۔ اس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے کسی پر بھروسہ کیا، کسی کے فریب میں آ کر ایک ایسا قدم اٹھا لیا جو نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ ہاں، اس نے ہمبستری کی — لیکن وہ عمل دو افراد کے درمیان ہوا، تنہا اُس کا گناہ نہیں تھا۔

لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ سراسر ظلم ہے۔ اس کی نجی زندگی کی ویڈیو لیک ہوئی، اور پھر وہی معاشرہ جو دن رات ’عزت‘ اور ’حیا‘ کے نعرے لگاتا ہے، اسے برباد کرنے پر تُل گیا۔ وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی، اس کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کی گئی، اور اسے گناہوں کا نشان بنا دیا گیا۔ سوال یہ ہے: قصور کس کا ہے؟ صرف مناہل کا؟ یا اس شخص کا جس نے ویڈیو ریکارڈ کی؟ یا ان ہزاروں لوگوں کا جو اسے شیئر کر کے، تضحیک کر کے، اسے نفسیاتی موت کی طرف دھکیل رہے ہیں؟

کیا ہم ایک ایسے معاشرے میں نہیں رہتے جہاں منافقت عام ہے؟ جہاں اپنی بیٹی کی غلطی چھپانے کے لیے پردہ اور خاموشی کا سہارا لیا جاتا ہے، مگر کسی اور کی بیٹی کی بےحرمتی کو تفریح بنا لیا جاتا ہے؟ آپ کی بہنیں، بیٹیاں، بیویاں بھی انسان ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اُن کے فون چیک کیے؟ ان کے میسجز پڑھے؟ نہیں نا؟ کیونکہ ہمیں یہ ماننے کی عادت ہی نہیں کہ گناہ ہمارے گھر کے اندر بھی ہو سکتا ہے۔

فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ کی ویڈیو لیک ہو جاتی ہے، اور کچھ چھپ چھپ کر سب کچھ کر کے بھی ’عزت دار‘ رہتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ مناہل نے جو کیا وہ درست تھا — ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ صرف وہی کیوں؟ کیا باقی سب بےقصور ہیں؟ کیا وہ مرد جس نے یہ ویڈیو بنائی اور لیک کی، کیا اس پر کوئی انگلی اٹھائے گا؟ کیا کوئی اسے بے غیرت کہے گا؟ شاید نہیں، کیونکہ ہم ایک مرد پرست معاشرے میں رہتے ہیں جہاں عورت کو ہی قصوروار ٹھہرانا آسان ہوتا ہے۔

ہماری بیٹی کو آپ کی نفرت کی نہیں، دعا کی ضرورت ہے۔ اس نے غلطی کی، اور وہ نادم ہے۔ رب اگر توبہ قبول کرتا ہے تو آپ کون ہوتے ہیں اس پر لعنت بھیجنے والے؟ اگر آپ واقعی انصاف پسند ہیں تو پہلے اپنے گھر میں، اپنے دل میں، اپنے طرزِ عمل میں جھانکیں۔ ورنہ یاد رکھیں، کل کو کسی اور کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے — اور شاید وہ مناہل جتنی مضبوط نہ ہو۔

ہماری بیٹی آج بھی ہماری عزت ہے۔ اس کا جرم صرف اتنا ہے کہ اس کا بھروسہ توڑا گیا، اس کی پرائیویسی پامال کی گئی، اور اسے تماشا بنایا گیا۔ لیکن تماشا بنانے والے یاد رکھیں، کل کو تماشا آپ بھی بن سکتے ہیں۔ کیونکہ گناہ چھپانے سے نہیں، معاف کرنے سے ختم ہوتے ہیں۔